Assalam O Alaikum! On this page of NOOR KI SHAYRI, here you can read and enjoy the best heart touching Urdu ghazal poetry.
-------------------------------------------------------------
تَو کیا ہوا جو آپ کے شمار میں نہیں رہا
میں مختلف سا شخص تھا ہزار میں نہیں رہا
یقین مانیے کہ جب سے آپ میرے ہو گئے
تَو یہ ہوا کہ ذائقہ انار میں نہیں رہا
فقط یہ آپ کا گلہ نہیں ہے میرے محترم
ہمارے ساتھ جو رہا قرار میں نہیں رہا
مجھے بھی عشق ہو دعائیں مانگتا تھا اور پھر
میں دائرے میں آ گیا قطار میں نہیں رہا
وہ سوکھ کر بتا مجھے خزاں سے کیا گلہ کرے
درخت جو ہرا بھرا بہار میں نہیں رہا
کبھی تو تِیس کو خوشی خوشی سے یہ بتاؤں گا
میں اِس مہینے دیکھ ماں ادھار میں نہیں رہا
شراب میں سرور کی تجھے سمجھ نہ آئے گی
کہ تُو کسی کی آنکھ کے خمار میں نہیں رہا
کسی کے روٹھنے سے رنگ زرد پڑ گیا مِرا
وگرنا دو گھڑی بھی میں بخار میں نہیں رہا
ستارہ ہو یا اشک ہو یہ طے شدہ سی بات ہے
وہ ٹوٹ کر گرے گا جو مدار میں نہیں رہا
-------------------------------------------------------------
مکاّر مُصنّف سے قلم چھین کے رکھ لو
غدّار سِپہ گر سے عَلَم چھین کے رکھ لو
جس آنکھ کو رونے کا ہُنر تک نہیں آتا
اُس چشمِ دریدہ سے وہ غم چھین کے رکھ لو
رہ گیر کو بتلا کہ رہِ امن کو چُن لے
جائے وہ مخالف تو قدم چھین کے رکھ لو
اِس دور کے واعظ سے ہے مطلوب نصیحت
بٹتا ہے جو فرقوں میں حِکَم چھین کے رکھ لو
جس قوم نے پامال کیا دین کو اپنے
اُس قوم سے اب فخرِ اُمم چھین کے رکھ لو
ممنوعِ ثمر خُورد , ہوس کار بنے ہیں
اِبلیس کے یاروں سے اِرم چھین کے رکھ لو
اِنکارِ مُسلسل جو کرے جہل کی مانند
مہٓرُو سی سِیہ دل سے حرم چھین کے رکھ لو
-------------------------------------------------------------
کیا لگے آنکھ ، کہ پھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایہ کوئی
فکر یہ تھی کہ شب ہجر کٹے گی کیوں کر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی
شوق یہ تھا ، کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ
رنج یہ ہے کہ تماشہ نہ دیکھا یا کوئی
شہر میں ہمدم دیرینہ بہت تھے ناصر
وقت پڑنے پے میرے کام نہ آیا کوئی
-------------------------------------------------------------
جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں
تم ہاتھ ہمارے لے جانا
جب سمجھو کہ کوئی ساتھ نہیں
تم ساتھ ہمارا لے جانا
جب دیکھو کہ تم تنہا ہو
اور راستے ہیں دشوار بہت
تم ہم کو اپنا کہہ دینا
بے باک سہارا لے جانا
جو بازی بھی تم جیتو گے
جو منزل بھی تم پاوگے
ہم پاس تمہارے ہوں نہ ہوں
احساس ہمارا لے جانا
اگر یاد ہماری آجائے
تم پاس ہمارے آجانا
بس ایک مسکان ہمیں دینا
پھر جان بھی چاہے لے جانا
-------------------------------------------------------------
گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن
جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن
اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے
کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن
پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل
کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن
جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں
ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن
اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا
اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن
-------------------------------------------------------------
وہ جو اپنا یار تھا دیر کا ، کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اُس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ھے زندگی ، کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کارِ حیات ھے ، کبھی قُرب کا ، کبھی دُور کا
ملے اِس میں لوگ رواں دواں ، کوئی بے وفا کوئی با وفا
کٹی عُمر اپنی یہاں وھاں ، کہیں دل لگا کہیں نہیں لگا
کوئی خُواب ایسا بھی ھے یہاں ، جسے دیکھ سکتے ھوں دیر تک
کسی دائمی شبِ وصل کا ، کسی مستقل غمِ یار کا
وہ جو اِس جہاں سے گزر گئے ، کسی اور شہر میں زندہ ھیں
کوئی ایسا شہر ضرور ھے ، انہی دوستوں سے بھرا ھُوا
یُونہی ھم مُنیرؔ پڑے رھے ، کسی اِک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے ایک پناہ سے ، کہیں اور جانے کا دَم نہ تھا
-------------------------------------------------------------
شال چھوٹی ہی سہی، رکھ لو ، بڑی ٹھیک نہیں
تم پہ نکھرے گی ذرا گھر میں پڑی ٹھیک نہیں
میں نے پوچھا ہے کہ چائے کے لئے وقت کوئی؟
ہنس کے بولی ہے اشارے سے ، گھڑی ٹھیک نہیں
اک تماشا ہے ، وہ میری ہے، نہیں ، میری ہے
یہ جو کھڑکی میں ہے دوشیزہ کھڑی ٹھیک نہیں
اس محلے میں اگر سانپ ڈسے بہتر ہے
لوگ کہتے ہیں یہاں آنکھ لڑی ٹھیک نہیں
جب بھی مکتب میں مجھے مار پڑے، وہ بولے
آپ ریشم ہو یہ شیشم کی چھڑی ٹھیک نہیں
ایسی بارش ہو تو راہب مجھے ڈر لگتا ہے
وہ بھی بارش میں یہ کہتی تھی جھڑی ٹھیک نہیں
-------------------------------------------------------------
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے
-------------------------------------------------------------
مجھے وہ جب بھی کسی کام سے پکارتا ہے
تو اپنے رکھے ہوئے نام سے پکارتا ہے
جھگڑتے وقت میں غصے میں جلد آتی ہوں
میں چیختی ہوں وہ آرام سے پکارتا ہے
ادھر یہ روشنی پڑتی ہے پاوں کمرے میں
ادھر اندھیرا درو بام سے پکارتا ہے
قریب تھا تو میری بے بسی پہ ہنستا تھا
جدا ہوا ہے تو ہر گام سے پکارتا ہے
میں اس کی باتوں میں آئی نہ آنے والی ہوں
یہ دشت حسرت - ناکام سے پکارتا ہے
سنائی دیتی ہے کومل صدائے "کن" ، "فیکوں
"
جو عشق روزن - الہام سے پکارتا ہے....
-------------------------------------------------------------
تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا
ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا
رفاقتوں کا مری اُس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا
عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی
کھلے دریچے پہ اِک گلدان چھوڑ گیا
جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھُپائےرکھتا تھا
بڑھی ہے دُھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا
نکل گیا کہیں ان دیکھے پانیوں کی طرف
زمیں کے نام کھُلا دربان چھوڑ گیا
عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے
جو گر گئی تو یونہی نیم جان چھوڑ گیا
نجانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل
کِس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا.
-------------------------------------------------------------
آئینے پھٹ گئے تھے، دِواریں تڑخ گئیں
چیخا میں اتنے زور سے چیخیں تڑخ گئیں
اتنا شدید درد تھا اتنا شدید درد
بس ضبط ہی کیا تھا کہ نبضیں تڑخ گئیں
تو مجھ سے کہہ رہا ہے، اسے بھول جاؤں میں
اک بار ایسا سوچا تھا، سوچیں تڑخ گئیں
وہ آگ ہو بہو تھی تمھارے بدن سی آگ
پھر ہاتھ میرے جل گئے، بانہیں تڑخ گئیں
پھر انتظار یار اشَدَ المرگ ہو گیا
اک رستہ دیکھ دیکھ کے آنکھیں تڑخ گئیں
سب انگلیاں اٹھا رہے تھے عشق پر امیر
میں نے کیا جو رقص، چٹانیں تڑخ گئیں۔
-------------------------------------------------------------
جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
دل کا وہ حال ہوا ہے غم دوراں کے تلے
جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے
انہیں گل رنگ دریچوں سے سحر جھانکے گی
کیوں نہ کھلتے ہوئے زخموں کو دعا دی جائے
کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں
اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
-------------------------------------------------------------
داغ دُنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
خُود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل،موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے
ہم حسینوں سے اِسی حیلے بہانے سے ملے
اِک نیا زخم ملا، ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کُچھ یار پُرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصۂ غم
اُن کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تُو اے کیفؔ
اُن کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
-------------------------------------------------------------
روشنی کی یہ ہوس کیا کیا جلائے گی نہ پوچھ
آرزوئے صبح کتنے ظلم ڈھائے گی نہ پوچھ
ہوش میں آئے گی دنیا میری بے ہوشی کے بعد
میری خاموشی وہ ہنگامہ مچائے گی نہ پوچھ
نسل آدم رفتہ رفتہ خود کو کر لے گی تباہ
اتنی سختی سے قیامت پیش آئے گی نہ پوچھ
درمیاں جو جسم کا پردہ ہے کیسے ہوگا چاک
موت کس ترکیب سے ہم کو ملائے گی نہ پوچھ
جسم اجازت دے ہی دے گا پر سمٹ جانے کے بعد
روح کیسے اس قفس کو گھر بنائے گی نہ پوچھ
-------------------------------------------------------------
آج خدا سے ملاقات ہوئی
تھوڑی سی پر بات ہوئی
مسجد میں داخل ہوئے ہم جب
گویا رحمتوں کی برسات ہوئی
بعد مدت ملا سکون دل کو
کڑی دھوپ میں برسات ہوئی
رکھا جیسے ہی سر کو سجدہ میں
فقط آنسووں کی برسات ہوئی
دے گیا سکوں دلِ مضطر کو
جب جھکا سر طبعیت سرشار ہوئی
الٰہی بند نہ کر ہم پہ اپنے دروازے
یہ امت یو نہی بہت شرمسار ہوئی
صفوں میں تھیں دوریاں لیکن
پر ادا بھر پور اپنی نماز ہوئی
رب کا شکر ہوا نصیب ہمیں
جیسے نعمتوں کی بھر مار ہوئی
-------------------------------------------------------------
ان کے اندازِِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ہے مگر درد نہ جانا دل کا
دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنادل کا
نقش برآب نہیں رحم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
ان کی محفل میں نصیر انکے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سےجانا دل کا
-------------------------------------------------------------
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے
-------------------------------------------------------------
چلو فرار خودی کا کوئی صلہ تو ملا
ہمیں ملے نہیں اس کو ہمیں خدا تو ملا
نشاط قریۂ جاں سے جدا ہوئی خوشبو
سفر کچھ ایسا ہے اب کے کوئی ملا تو ملا
ہمارے بعد روایت چلی محبت کی
نظام عالم ہستی کو فلسفہ تو ملا
جو چھوڑ آئے تھے تسکین دل کے واسطے ہم
تمہیں اے جان تمنا وہ نقش پا تو ملا
سوال آ گئے آنکھوں سے چھن کے ہونٹوں پر
ہمیں جواب نہ دینے کا فائدہ تو ملا
یہ آہ و گریہ و زاری کہیں تو کام آئی
ہوائے دشت کو پانی کا ذائقہ تو ملا
نماز عصر نہیں پڑھ سکی مری وحشت
جنون عشق کو میدان کربلا تو ملا
پھر اس کے بعد بر آمد نہ ہو سکا کچھ بھی
ہمارے آنکھ میں جلتا ہوا دیا تو ملا
-------------------------------------------------------------
اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آ گئے
سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بےوقوف
سارے سپاہی موم کے تھے گھل کے آ گئے
مسجد میں دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
ہم آج اپنے آپ سے مل جل کے آ گئے
نیندوں سے جنگ ہوتی رہے گی تمام عمر
آنکھوں میں بند خواب اگر کھل کے آ گئے
سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آ گئے
انجانے سائے پھرنے لگے ہیں ادھر ادھر
موسم ہمارے شہر میں کابل کے آ گئے
-------------------------------------------------------------
صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے
اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہئے
شہر کی ساری الف لیلائیں بوڑھی ہو چکیں
شاہزادے کو کوئی تازہ کہانی چاہئے
میں نے اے سورج تجھے پوجا نہیں سمجھا تو ہے
میرے حصے میں بھی تھوڑی دھوپ آنی چاہئے
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمہیں قیمت لگانی چاہئے
زندگی ہے اک سفر اور زندگی کی راہ میں
زندگی بھی آئے تو ٹھوکر لگانی چاہئے
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
-------------------------------------------------------------
گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
نشہ ایسا تھا کہ مے خانے کو دنیا سمجھا
ہوش آیا تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
-------------------------------------------------------------
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں
عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں
میں آئنوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں
وہ ذرے ذرے میں موجود ہے مگر میں بھی
کہیں کہیں ہوں کہاں ہوں کہیں نہیں ہوں میں
وہ اک کتاب جو منسوب تیرے نام سے ہے
اسی کتاب کے اندر کہیں کہیں ہوں میں
ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں
یہیں حسین بھی گزرے یہیں یزید بھی تھا
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمیں ہوں میں
یہ بوڑھی قبریں تمہیں کچھ نہیں بتائیں گی
مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں
-------------------------------------------------------------
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
میں جانتا تھا کہ زہریلا سانپ بن بن کر
ترا خلوص مری آستیں سے نکلے گا
اسی گلی میں وہ بھوکا فقیر رہتا تھا
تلاش کیجے خزانہ یہیں سے نکلے گا
بزرگ کہتے تھے اک وقت آئے گا جس دن
جہاں پہ ڈوبے گا سورج وہیں سے نکلے گا
گزشتہ سال کے زخمو ہرے بھرے رہنا
جلوس اب کے برس بھی یہیں سے نکلے گا
-------------------------------------------------------------
شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا
کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا
دروازوں نے اپنی آنکھیں نم کر لیں
دیواروں نے اپنا سینہ تان لیا
پیاس تو اپنی سات سمندر جیسی تھی
ناحق ہم نے بارش کا احسان لیا
میں نے تلووں سے باندھی تھی چھاؤں مگر
شاید مجھ کو سورج نے پہچان لیا
کتنے سکھ سے دھرتی اوڑھ کے سوئے ہیں
ہم نے اپنی ماں کا کہنا مان لیا
-------------------------------------------------------------
0 Comments