____________________________________________________
میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ہے
آج پھر دل کو تڑپنے کی لگن کیسی ہے
اب کسی چھت پہ چراغوں کی قطاریں بھی نہیں
اب ترے شہر کی گلیوں میں گھٹن کیسی ہے
برف کے روپ میں ڈھل جائیں گے سارے رشتے
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اگن کیسی ہے
میں ترے وصل کی خواہش کو نہ مرنے دوں گا
موسم ہجر کے لہجے میں تھکن کیسی ہے
ریگزاروں میں جو بنتی رہی کانٹوں کی ردا
اس کی مجبور سی آنکھوں میں کرن کیسی ہے
مجھے معصوم سی لڑکی پہ ترس آتا ہے
اسے دیکھو تو محبت میں مگن کیسی ہے
____________________________________________________
یہ کب کہا تھا نظاروں سے خوف آتا ہے
مجھے تو چاند ستاروں سے خوف آتا ہے
میں دشمنوں کے کسی وار سے نہیں ڈرتا
مجھے تو اپنے ہی یاروں سے خوف آتا ہے
خزاں کا جبر تو سینے پہ روک لیتے ہیں
ہمیں اداس بہاروں سے خوف آتا ہے
ملے ہیں دوستو بیساکھیوں سے غم اتنے
مرے بدن کو سہاروں سے خوف آتا ہے
میں التفات کی خندق سے دور رہتا ہوں
تعلقات کے غاروں سے خوف آتا ہے
____________________________________________________
مان لے اب بھی مری جان ادا درد نہ چن
کام آتی نہیں پھر کوئی دعا درد نہ چن
اور کچھ دیر میں مجھ کو چلے جانا ہوگا
اور کچھ دیر مجھے خواب دکھا درد نہ چن
ایک بھی درد نہ کم ہوگا کئی صدیوں میں
اب بھی کہتا ہوں تجھے وقت بچا درد نہ چن
وہ جو لکھا ہے کسی طور نہیں ٹل سکتا
آ مرے دل میں کوئی دیپ جلا درد نہ چن
میں ترے لمس سے محروم نہ رہ جاؤں کہیں
آخری بار مجھے خود سے لگا درد نہ چن
اب تو یہ ریشمی پوریں بھی چھدی جاتی ہیں
خود کو اب بخش بھی دے ظلم نہ ڈھ درد نہ چن
یہ نہیں ہوں گے تو کھائے نہیں ہو جاؤں گا میں
میرے زخموں سے کوئی گیت بنا درد نہ چن
کچھ نہ دے گا یہ مسائل سے الجھتے رہنا
چھوڑ سب کچھ مری بانہوں میں سما درد نہ چن
____________________________________________________
فلک پہ چاند کے ہالے بھی سوگ کرتے ہیں
جو تو نہیں تو اجالے بھی سوگ کرتے ہیں
تمہارے ہاتھ کی چوڑی بھی بین کرتی ہے
ہمارے ہونٹ کے تالے بھی سوگ کرتے ہیں
نگر نگر میں وہ بکھرے ہیں ظلم کے منظر
ہماری روح کے چھالے بھی سوگ کرتے ہیں
اسے کہو کہ ستم میں وہ کچھ کمی کر دے
کہ ظلم توڑنے والے بھی سوگ کرتے ہیں
تم اپنے دکھ پہ اکیلے نہیں ہو افسردہ
تمہارے چاہنے والے بھی سوگ کرتے ہیں
____________________________________________________
دکھ درد کے ماروں سے مرا ذکر نہ کرنا
گھر جاؤ تو یاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
وہ ضبط نہ کر پائیں گی آنکھوں کے سمندر
تم راہ گزاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
پھولوں کے نشیمن میں رہا ہوں میں سدا سے
دیکھو کبھی خاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں
اب چاند ستاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
وہ میری کہانی کو غلط رنگ نہ دے دیں
افسانہ نگاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
شاید وہ مرے حال پہ بے ساختہ رو دیں
اس بار بہاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
لے جائیں گے گہرائی میں تم کو بھی بہا کر
دریا کے کناروں سے مرا ذکر نہ کرنا
وہ شخص ملے تو اسے ہر بات بتانا
تم صرف اشاروں سے مرا ذکر نہ کرنا
____________________________________________________
بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے
کچھ ایسے ہی تمہارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے
محبت ہو کہ نفرت ہو اسی سے مشورہ ہوگا
مری ہر کیفیت میں استخارہ ساتھ ہوتا ہے
سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن
دعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے
مرے مولا نے مجھ کو چاہتوں کی سلطنت دے دی
مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے
اگر سیدؔ مرے لب پر محبت ہی محبت ہے
تو پھر بھی کس لیے نفرت کا دھارا ساتھ رہتا ہے
____________________________________________________
قلم ہو تیغ ہو تیشہ کہ ڈھال مت چھنیو
کبھی کسی سے کسی کا کمال مت چھنیو
خوشی اسی میں اگر ہے تو ہر خوشی لے لو
یہ دکھ یہ درد یہ حزن و ملال مت چھنیو
اسی خلش کے سبب پھر مجھے ابھرنا ہے
خدا کے واسطے عہد زوال مت چھنیو
میں چھوڑ سکتا نہیں ساتھ استقامت کا
مری اذان سے جوش بلال مت چھنیو
ابھی کتاب نہ چھنیو تم ان کے ہاتھوں سے
ہمارے بچوں کا حسن و جمال مت چھنیو
ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم رہنے دو
ہمارے ہاتھ سے پھولوں کی ڈال مت چھنیو
ابھی بجھاؤ نہ کینڈل نہ کیک کاٹو ابھی
کچھ اور دیر مرا پچھلا سال مت چھنیو
____________________________________________________
غم کی اس سل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
تو مرے دل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
مجھ کو تسلیم تری ساری ذہانت لیکن
مجھ سے جاہل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
پوچھ لے مجھ سے حقیقت تو وگرنہ اپنے
آنکھ کے تل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
بن محبت کے تو ہنستی ہوئی ان آنکھوں کی
بھیگی جھلمل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
زندگی خود بھی تجھے مرنا پڑے گا ورنہ
میرے قاتل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی
____________________________________________________
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے
کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے
کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے
کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لیے غم اٹھایا کرتے تھے
فون پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے تھے
آخری میں اس کو لکھا ہے
تم مجھے یاد آیا کرتے تھے
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے
____________________________________________________
تیری جانب اگر چلے ہوتے
ہم نہ یوں در بدر ہوئے ہوتے
ساری دنیا ہے میری مٹھی میں
کون آئے گا اب ترے ہوتے
اور اب کیوں نہیں نبھاتے تم
اتنے وعدے نہیں کیے ہوتے
پا لیا میں نے ساری دنیا کو
کوئی خواہش نہیں ترے ہوتے
اس کی آنکھوں میں بار پانے کو
کاش ہم خواب بن گئے ہوتے
____________________________________________________
1 Comments
Chack out Heard Working 800+poetry images sad poetry status,sad, poetry sms,sad ,poetry in urdu 2 lines,sad
ReplyDeletehttps://top10urdupoetry.blogspot.com/