Wasi Shah Urdu Ghazal Shayri

Assalam O Alaikum! On this page of NOOR KI SHAYRI, you can read and enjoy Heart Touching Urdu Ghazal poetry of Wasi Shah.



____________________________________________________


میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ہے

آج پھر دل کو تڑپنے کی لگن کیسی ہے


اب کسی چھت پہ چراغوں کی قطاریں بھی نہیں

اب ترے شہر کی گلیوں میں گھٹن کیسی ہے


برف کے روپ میں ڈھل جائیں گے سارے رشتے

مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اگن کیسی ہے


میں ترے وصل کی خواہش کو نہ مرنے دوں گا

موسم ہجر کے لہجے میں تھکن کیسی ہے


ریگزاروں میں جو بنتی رہی کانٹوں کی ردا

اس کی مجبور سی آنکھوں میں کرن کیسی ہے


مجھے معصوم سی لڑکی پہ ترس آتا ہے

اسے دیکھو تو محبت میں مگن کیسی ہے


____________________________________________________


یہ کب کہا تھا نظاروں سے خوف آتا ہے

مجھے تو چاند ستاروں سے خوف آتا ہے


میں دشمنوں کے کسی وار سے نہیں ڈرتا

مجھے تو اپنے ہی یاروں سے خوف آتا ہے


خزاں کا جبر تو سینے پہ روک لیتے ہیں

ہمیں اداس بہاروں سے خوف آتا ہے


ملے ہیں دوستو بیساکھیوں سے غم اتنے

مرے بدن کو سہاروں سے خوف آتا ہے


میں التفات کی خندق سے دور رہتا ہوں

تعلقات کے غاروں سے خوف آتا ہے


____________________________________________________


مان لے اب بھی مری جان ادا درد نہ چن

کام آتی نہیں پھر کوئی دعا درد نہ چن


اور کچھ دیر میں مجھ کو چلے جانا ہوگا

اور کچھ دیر مجھے خواب دکھا درد نہ چن


ایک بھی درد نہ کم ہوگا کئی صدیوں میں

اب بھی کہتا ہوں تجھے وقت بچا درد نہ چن


وہ جو لکھا ہے کسی طور نہیں ٹل سکتا

آ مرے دل میں کوئی دیپ جلا درد نہ چن


میں ترے لمس سے محروم نہ رہ جاؤں کہیں

آخری بار مجھے خود سے لگا درد نہ چن


اب تو یہ ریشمی پوریں بھی چھدی جاتی ہیں

خود کو اب بخش بھی دے ظلم نہ ڈھ درد نہ چن


یہ نہیں ہوں گے تو کھائے نہیں ہو جاؤں گا میں

میرے زخموں سے کوئی گیت بنا درد نہ چن


کچھ نہ دے گا یہ مسائل سے الجھتے رہنا

چھوڑ سب کچھ مری بانہوں میں سما درد نہ چن


____________________________________________________


فلک پہ چاند کے ہالے بھی سوگ کرتے ہیں

جو تو نہیں تو اجالے بھی سوگ کرتے ہیں


تمہارے ہاتھ کی چوڑی بھی بین کرتی ہے

ہمارے ہونٹ کے تالے بھی سوگ کرتے ہیں


نگر نگر میں وہ بکھرے ہیں ظلم کے منظر

ہماری روح کے چھالے بھی سوگ کرتے ہیں


اسے کہو کہ ستم میں وہ کچھ کمی کر دے

کہ ظلم توڑنے والے بھی سوگ کرتے ہیں


تم اپنے دکھ پہ اکیلے نہیں ہو افسردہ

تمہارے چاہنے والے بھی سوگ کرتے ہیں


____________________________________________________


دکھ درد کے ماروں سے مرا ذکر نہ کرنا

گھر جاؤ تو یاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


وہ ضبط نہ کر پائیں گی آنکھوں کے سمندر

تم راہ گزاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


پھولوں کے نشیمن میں رہا ہوں میں سدا سے

دیکھو کبھی خاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


شاید یہ اندھیرے ہی مجھے راہ دکھائیں

اب چاند ستاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


وہ میری کہانی کو غلط رنگ نہ دے دیں

افسانہ نگاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


شاید وہ مرے حال پہ بے ساختہ رو دیں

اس بار بہاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


لے جائیں گے گہرائی میں تم کو بھی بہا کر

دریا کے کناروں سے مرا ذکر نہ کرنا


وہ شخص ملے تو اسے ہر بات بتانا

تم صرف اشاروں سے مرا ذکر نہ کرنا


____________________________________________________


بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے

کچھ ایسے ہی تمہارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے


محبت ہو کہ نفرت ہو اسی سے مشورہ ہوگا

مری ہر کیفیت میں استخارہ ساتھ ہوتا ہے


سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن

دعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے


مرے مولا نے مجھ کو چاہتوں کی سلطنت دے دی

مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے


اگر سیدؔ مرے لب پر محبت ہی محبت ہے

تو پھر بھی کس لیے نفرت کا دھارا ساتھ رہتا ہے


____________________________________________________


قلم ہو تیغ ہو تیشہ کہ ڈھال مت چھنیو

کبھی کسی سے کسی کا کمال مت چھنیو


خوشی اسی میں اگر ہے تو ہر خوشی لے لو

یہ دکھ یہ درد یہ حزن و ملال مت چھنیو


اسی خلش کے سبب پھر مجھے ابھرنا ہے

خدا کے واسطے عہد زوال مت چھنیو


میں چھوڑ سکتا نہیں ساتھ استقامت کا

مری اذان سے جوش بلال مت چھنیو


ابھی کتاب نہ چھنیو تم ان کے ہاتھوں سے

ہمارے بچوں کا حسن و جمال مت چھنیو


ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم رہنے دو

ہمارے ہاتھ سے پھولوں کی ڈال مت چھنیو


ابھی بجھاؤ نہ کینڈل نہ کیک کاٹو ابھی

کچھ اور دیر مرا پچھلا سال مت چھنیو


____________________________________________________


غم کی اس سل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی

تو مرے دل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی


مجھ کو تسلیم تری ساری ذہانت لیکن

مجھ سے جاہل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی


پوچھ لے مجھ سے حقیقت تو وگرنہ اپنے

آنکھ کے تل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی


بن محبت کے تو ہنستی ہوئی ان آنکھوں کی

بھیگی جھلمل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی


زندگی خود بھی تجھے مرنا پڑے گا ورنہ

میرے قاتل کو کبھی بھی نہ سمجھ پائے گی


____________________________________________________


کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے


کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر

دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے


ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے

کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے


کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر

اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے


کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے

کس لیے غم اٹھایا کرتے تھے


فون پر گیت جو سناتے تھے

اب وہ کس کو سنایا کرتے تھے


آخری میں اس کو لکھا ہے

تم مجھے یاد آیا کرتے تھے


کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے

یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے


____________________________________________________


تیری جانب اگر چلے ہوتے

ہم نہ یوں در بدر ہوئے ہوتے


ساری دنیا ہے میری مٹھی میں

کون آئے گا اب ترے ہوتے


اور اب کیوں نہیں نبھاتے تم

اتنے وعدے نہیں کیے ہوتے


پا لیا میں نے ساری دنیا کو

کوئی خواہش نہیں ترے ہوتے


اس کی آنکھوں میں بار پانے کو

کاش ہم خواب بن گئے ہوتے


____________________________________________________


Post a Comment

1 Comments

  1. Chack out Heard Working 800+poetry images sad poetry status,sad, poetry sms,sad ,poetry in urdu 2 lines,sad
    https://top10urdupoetry.blogspot.com/

    ReplyDelete