Mir Taqi Mir Urdu Ghazal Shayri

Assalam O Alaikum! On this page of NOOR KI SHAYRI, you can read and enjoy the poetry of Mir Taqi Mir.




-------------------------------------------------------------


دل بیتاب آفت ہے بلا ہے

جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے


ہمارا تو ہے اصل مدعا تو

خدا جانے ترا کیا مدعا ہے


محبت کشتہ ہیں ہم یاں کسو پاس

ہمارے درد کی بھی کچھ دوا ہے


حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب

اگر یاں ہے خدا واں بھی خدا ہے


نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے

ہمارا گفتگو کا ڈھب جدا ہے


کوئی ہے دل کھنچے جاتے ہیں اودھر

فضولی ہے تجسس یہ کہ کیا ہے


مروں میں اس میں یا رہ جاؤں جیتا

یہی شیوہ مرا مہر و وفا ہے


صبا اودھر گل اودھر سرو اودھر

اسی کی باغ میں اب تو ہوا ہے


تماشا کردنی ہے داغ سینہ

یہ پھول اس تختے میں تازہ کھلا ہے


ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں

قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے


جگہ افسوس کی ہے بعد چندے

ابھی تو دل ہمارا بھی بجا ہے


جو چپکے ہوں کہے چپکے ہو کیوں تم

کہو جو کچھ تمہارا مدعا ہے


سخن کریے تو ہووے حرف زن یوں

بس اب منہ موند لے میں نے سنا ہے


کب اس بیگانہ خو کو سمجھے عالم

اگرچہ یار عالم آشنا ہے


نہ عالم میں ہے نے عالم سے باہر

پہ سب عالم سے عالم ہی جدا ہے


لگا میں گرد سر پھرنے تو بولا

تمہارا میرؔ صاحب سرپھرا ہے


-------------------------------------------------------------


دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا


سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ

ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگ گردن جلا


بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ

ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہ نو دامن جلا


کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں

بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا


گرمی اس آتش کے پر کالے سے رکھے چشم تب

جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا


ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی

کاٹ اپنی رات کو خار و خس گلخن جلا


سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا

بجھ ہی جاتے ہیں دیئے جس وقت سب روغن جلا


شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے

دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا


آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ

دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا


-------------------------------------------------------------


امیروں تک رسائی ہو چکی بس

مری بخت آزمائی ہو چکی بس


بہار اب کے بھی جو گزری قفس میں

تو پھر اپنی رہائی ہو چکی بس


کہاں تک اس سے قصہ قضیہ ہر شب

بہت باہم لڑائی ہو چکی بس


نہ آیا وہ مرے جاتے جہاں سے

یہیں تک آشنائی ہو چکی بس


لگا ہے حوصلہ بھی کرنے تنگی

غموں کی اب سمائی ہو چکی بس


برابر خاک کے تو کر دکھایا

فلک بس بے ادائی ہو چکی بس


دنی کے پاس کچھ رہتی ہے دولت

ہمارے ہاتھ آئی ہو چکی بس


دکھا اس بت کو پھر بھی یا خدایا

تری قدرت نمائی ہو چکی بس


شرر کی سی ہے چشمک فرصت عمر

جہاں دے ٹک دکھائی ہو چکی بس


گلے میں گیروی کفنی ہے اب میرؔ

تمہاری میرزائی ہو چکی بس


-------------------------------------------------------------


آج کل بے قرار ہیں ہم بھی

بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی


آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں

تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی


منا گریہ نہ کر تو اے ناصح

اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی


درپئے جان ہے قراول مرگ

کسو کے تو شکار ہیں ہم بھی


نالے کریو سمجھ کے اے بلبل

باغ میں یک کنار ہیں ہم بھی


مدعی کو شراب ہم کو زہر

عاقبت دوست دار ہیں ہم بھی


مضطرب گریہ ناک ہے یہ گل

برق ابر بہار ہیں ہم بھی


گر زخود رفتہ ہیں ترے نزدیک

اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی


میرؔ نام اک جواں سنا ہوگا

اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی


-------------------------------------------------------------


اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا

چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا


امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے

آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا


کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں

کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا


اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں

معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا


بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل

اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا


جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف

اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا


تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر

کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا


-------------------------------------------------------------


اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ

سوز دل سے داغ ہے بالائے داغ


دل جلا آنکھیں جلیں جی جل گیا

عشق نے کیا کیا ہمیں دکھلائے داغ


دل جگر جل کر ہوئے ہیں دونوں ایک

درمیاں آیا ہے جب سے پائے داغ


منفعل ہیں لالہ و شمع و چراغ

ہم نے بھی کیا عاشقی میں کھائے داغ


وہ نہیں اب میرؔ جو چھاتی جلے

کھا گیا سارے جگر کو ہائے داغ 


-------------------------------------------------------------


اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا


ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم یار

سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا


ہم رہرو‌ان راہ فنا ہیں برنگ عمر

جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا


پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل

تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا


اپنے شہید ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر

دیوان حشر میں اسے لایا نہ جائے گا


اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک

پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا


ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے

آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا


گو بے ستوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن

سنگ گران عشق اٹھایا نہ جائے گا


ہم تو گئے تھے شیخ کو انسان بوجھ کر

پر اب سے خانقاہ میں جایا نہ جائے گا


یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا


-------------------------------------------------------------


میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی


خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں

خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی


ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج

اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی


مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے

اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی


بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا

پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی


کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے

وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی


اس کا وہ عجز تمہارا یہ غرور خوبی

منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی


کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار

رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی


سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا

سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی


مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیئے لوگوں کو

شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی


میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمہاری تلوار

کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی


آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے

دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی


اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل

حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی


-------------------------------------------------------------


کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی

دھوم ہے پھر بہار آنے کی


دل کا اس کنج لب سے دے ہے نشاں

بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی


وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور

ہے یہ تقریب جی کے جانے کی


تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق

تھی خبر گرم اس کے آنے کی


خضر اس خط سبز پر تو موا

دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی


دل صد چاک باب زلف ہے لیک

باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی


کسو کم ظرف نے لگائی آہ

تجھ سے مے خانے کے جلانے کی


ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی

جام داری شراب خانے کی


جو ہے سو پائمال غم ہے میرؔ

چال بے ڈول ہے زمانے کی


-------------------------------------------------------------


تا بہ مقدور انتظار کیا

دل نے اب زور بے قرار کیا


دشمنی ہم سے کی زمانے نے

کہ جفاکار تجھ سا یار کیا


یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا


ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے

طائر سدرہ تک شکار کیا


صد رگ جاں کو تاب دے باہم

تیری زلفوں کا ایک تار کیا


ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا


سخت کافر تھا جن نے پہلے میرؔ

مذہب عشق اختیار کیا 


-------------------------------------------------------------


اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو آتا ہے جب نہیں آتا


ہوش جاتا رہا نہیں لیکن

جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا


صبر تھا ایک مونس ہجراں

سو وہ مدت سے اب نہیں آتا


دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش

گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا


حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ

بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا


جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم !

پر سخن تا بہ لب نہیں آتا


دور بیٹھا غبار میر اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا


-------------------------------------------------------------


ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا


قافلے میں صبح کے اک شور ہے

یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا


سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں

تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا


یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں

داغ چھپاتے کے عبث دھوتا ہے کیا


غیرتِ یوسف ہے یہ وقت عزیز

میر اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا


-------------------------------------------------------------


ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے

بو گئی کچھ دماغ میں گل کے


جائے روغن دیا کرے ہے عشق

خون بلبل چراغ میں گل کے


دل تسلی نہیں صبا ورنہ

جلوے سب ہیں گے داغ میں گل کے


اس حدیقے کے عیش پر مت جا

مے نہیں ہے ایاغ میں گل کے


سیر کر میرؔ اس چمن کی شتاب

ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے



-------------------------------------------------------------


ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے


جن کی خاطر کی استخواں شکنی

سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے


نہیں آتی کسو کی آنکھوں میں

ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے


آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں

ان دنوں تم بہت شریر ہوئے


اپنے روتے ہی روتے صحرا کے

گوشے گوشے میں آب گیر ہوئی


ایسی ہستی عدم میں داخل ہے

نے جواں ہم نے طفل شیر ہوئے


ایک دم تھی نمود و بود اپنی

یا سفیدی کی یا خیر ہوئے


یعنی مانند صبح دنیا میں

ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے


مت مل اہل دول کے لڑکوں سے

میر جی ان سے مل کے فقیر ہوئے


-------------------------------------------------------------


فقیرانہ آئے صدا کرچلے

میاں ! خوش رہو ہم دعا کر چلے


جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم 

سو اس عہد کو اب وفا کر چلے


نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے

ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے


شفا اپنی تقدیر میں ہی نہ تھی

کہ مقدور تک تو دوا کر چلے


وہ کیا چیز ہے؟ آہ ! جس کے لیے

ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے


دکھائی دے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے


جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی

حق بندگی ہم ادا کر چلے


کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر 

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے


-------------------------------------------------------------


کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ

جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ


رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ


مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی

کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ


شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال

چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ


راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی

جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ


وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گزرے

جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ


ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے

دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ


کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ

دل کو اک ربط سا ہے دیدۂ خوں بار کے ساتھ


میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی

جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ


دیکھیے کس کو شہادت سے سرافراز کریں

لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ


بیکلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل

دم کش میرؔ ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ


-------------------------------------------------------------


کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق

جان کا روگ ہے بلا ہے عشق


عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو

سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق


عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں

کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق


عشق معشوق عشق عاشق ہے

یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق


گر پرستش خدا کی ثابت کی

کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق


دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں

مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق


ہے ہمارے بھی طور کا عاشق

جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق


کوئی خواہاں نہیں محبت کا

تو کہے جنس ناروا ہے عشق


میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو

کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق


-------------------------------------------------------------


آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں


برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو

دل کو بے قرار رکھتے ہیں


غیر ہی مورد عنایت ہے

ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں


نہ نگہ نے پیام نے وعدہ

نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں


ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو

لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں


چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور

بس یہی اعتبار رکھتے ہیں


پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق

ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں


-------------------------------------------------------------

Post a Comment

0 Comments