-------------------------------------------------------------
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد
ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد
ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد
درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہلِ جنوں کے لیے آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکرّر لبِ ساقی میں صلا میرے بعد
ہے مکرّر لبِ ساقی میں صلا میرے بعد
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد
تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں اربابِ ریا میرے بعد
بے خطر جیتے ہیں اربابِ ریا میرے بعد
تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرّق ہوئے میرے رفَقا میرے بعد
متفرّق ہوئے میرے رفَقا میرے بعد
آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
-------------------------------------------------------------
بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار
ہوئی ہے کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار
ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
نہ پوچھ بے خودیِ عیشِ مَقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار
-------------------------------------------------------------
-------------------------------------------------------------
کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
سرگرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر
بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ' ظرفِ قدح خوار' دیکھ کر
دیتے ہیں بادہ' ظرفِ قدح خوار' دیکھ کر
سر پھوڑنا وہ! 'غالبؔ شوریدہ حال' کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
-------------------------------------------------------------
فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
دام، سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا
دام، سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا
لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا
کاؤکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
-------------------------------------------------------------
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا
سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا
مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا
تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا
تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا
فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا
عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی
خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا
خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا
مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا
-------------------------------------------------------------
عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا
جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا
بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا
ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا
عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بسر
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا
-------------------------------------------------------------
------------------------------------------------------------
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل
نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا
نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
-------------------------------------------------------------
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا
مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا
بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا
جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا
یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا
ہوں قطرہ زن بمرحلۂ یاس روز و شب
جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا
جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا
اے آہ میری خاطرِ وابستہ کے سوا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہ
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہ
-------------------------------------------------------------
اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے
کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے
امّیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے
سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے
وارفتگیِ دل ہے یا دستِ تصرّف ہے
ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے
ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے
یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا
اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے
اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے
غالبؔ کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے
-------------------------------------------------------------
دعوۂ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح
ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح
ساقِ گلرنگ سے اور آئنۂ زانو سے
جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہِ داماں گل و صبح
جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہِ داماں گل و صبح
وصل آئینۂ رخاں ہم نفسِ یک دیگر
ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح
ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح
آئنہ خانہ ہے صحنِ چمنستاں تجھ سے
بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و صبح
بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و صبح
زندگانی نہیں بیش از نفسِ چند اسدؔ
غفلت آرامیِ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح
غفلت آرامیِ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح
-------------------------------------------------------------
بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم
موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
بسکہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع
پنجۂ خورشید کو سمجھتے ہیں دستِ شانہ ہم
پنجۂ خورشید کو سمجھتے ہیں دستِ شانہ ہم
نقش بندِ خاک ہے موج از فروغِ ماہتاب
سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم
سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم
مشقِ از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزارِ خیال
آشنا تعبیرِ خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم
آشنا تعبیرِ خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم
فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں
جوں زبانِ شمع داغِ گرمیِ افسانہ ہم
جوں زبانِ شمع داغِ گرمیِ افسانہ ہم
جانتے ہیں جوششِ سودائے زلفِ یار میں
سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم
سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم
بسکہ وہ چشم و چراغِ محفلِ اغیار ہے
چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمعِ ماتم خانہ ہم
چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمعِ ماتم خانہ ہم
شامِ غم میں سوزِ عشقِ شمع رویاں سے اسدؔ
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
-------------------------------------------------------------
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے یا رب
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا
-------------------------------------------------------------
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
-------------------------------------------------------------
بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا
جنونِ برق نشتر ہے رگِ ابرِ بہاری کا
جنونِ برق نشتر ہے رگِ ابرِ بہاری کا
برائے حلِّ مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت
بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا
بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا
بوقتِ سر نگونی ہے تصوّر انتظارستاں کا
نگہ کو سالوں سے شغل ہے اختر شماری کا
نگہ کو سالوں سے شغل ہے اختر شماری کا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا
حریفِ جوششِ دریا نہیں خود داریِ ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
اسدؔ ساغر کشِ تسلیم ہو گردش سے گردوں کی
کہ ننگِ فہمِ مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا
کہ ننگِ فہمِ مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا