-------------------------------------------------------
چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح
پلٹ کے دیکھا تو بیٹھے ہیں نقش پا کی طرح
مجھے وفا کی طلب ہے مگر ہر اک سے نہیں
کوئی ملے مگر اس یار بے وفا کی طرح
مرے وجود کا صحرا ہے منتظر کب سے
کبھی تو آ جرس غنچہ کی صدا کی طرح
وہ اجنبی تھا تو کیوں مجھ سے پھیر کر آنکھیں
گزر گیا کسی دیرینہ آشنا کی طرح
کشاں کشاں لیے جاتی ہے جانب منزل
نفس کی ڈور بھی زنجیر بے صدا کی طرح
فرازؔ کس کے ستم کا گلا کریں کس سے
کہ بے نیاز ہوئی خلق بھی خدا کی طرح
-------------------------------------------------------
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فرازؔ آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
-------------------------------------------------------
یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا
کہ جس کے ساتھ نہ تھا ہم سفر اسی کا رہا
وہ بت کہ دشمن دیں تھا بقول ناصح کے
سوال سجدہ جب آیا تو در اسی کا رہا
ہزار چارہ گروں نے ہزار باتیں کیں
کہا جو دل نے سخن معتبر اسی کا رہا
بہت سی خواہشیں سو بارشوں میں بھیگی ہیں
میں کس طرح سے کہوں عمر بھر اسی کا رہا
کہ اپنے حرف کی توقیر جانتا تھا فرازؔ
اسی لیے کف قاتل پہ سر اسی کا رہا
-------------------------------------------------------
غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں
قبا کی حرص میں دستار بیچ دیتے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں کہ دو چار خواہشوں کے لیے
تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں
جنون زینت آرائش مکاں کے لیے
کئی مکیں در و دیوار بیچ دیتے ہیں
ذرا بھی نرخ ہو بالا تو تاجران حرم
گلیم و جبہ و دستار بیچ دیتے ہیں
بس اتنا فرق ہے یوسف میں اور مجھ میں فرازؔ
کہ اس کو غیر مجھے یار بیچ دیتے ہیں
-------------------------------------------------------
جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے
ہوا چلی ہے تو جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
وہ مدتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے
غزل میں جیسے ترے خد و خال بول اٹھیں
کہ جس طرح تری تصویر بات کرنے لگے
بہت دنوں سے وہ گمبھیر خامشی ہے فرازؔ
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے
-------------------------------------------------------
جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بہ لب ہوں ترک تعلق کے زہر سے
وہ مطمئن کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
-------------------------------------------------------
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
-------------------------------------------------------
0 Comments