-------------------------------------------------------
جو ہوا جونؔ وہ ہوا بھی نہیں
یعنی جو کچھ بھی تھا وہ تھا بھی نہیں
بس گیا جب وہ شہر دل میں مرے
پھر میں اس شہر میں رہا بھی نہیں
اک عجب طور حال ہے کہ جو ہے
یعنی میں بھی نہیں خدا بھی نہیں
لمحوں سے اب معاملہ کیا ہو
دل پہ اب کچھ گزر رہا بھی نہیں
جانیے میں چلا گیا ہوں کہاں
میں تو خود سے کہیں گیا بھی نہیں
تو مرے دل میں آن کے بس جا
اور تو میرے پاس آ بھی نہیں
-------------------------------------------------------
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
-------------------------------------------------------
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا
بد حواسی کہاں سے آتی ہے
وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا شناسی کہاں سے آتی ہے
ایک زندان بے دلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
دل ہے شب سوختہ سوائے امید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے
میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نراسی کہاں سے آتی ہے
-------------------------------------------------------
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا
نکہت پیرہن سے اس گل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالم ترک مدعا میرا
جب تجھے میری چاہ تھی جاناں
بس وہی وقت تھا کڑا میرا
کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا
آ چکا پیش وہ مروت سے
اب چلوں کام ہو چکا میرا
آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اک یار مر گیا میرا
-------------------------------------------------------
سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا
آخرش خون تھوکنے سے میاں
بات میں تیری کیا اثر آیا
تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا
ہر طرف سے میں بے خبر آیا
اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے
نہیں آؤں گا میں اگر آیا
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر
آج میں اس سے بھی مکر آیا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا
-------------------------------------------------------
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
جان جاں تجھ کو اب تری خاطر
یاد ہم کوئی دم نہیں کرتے
دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم
سر تسلیم خم نہیں کرتے
وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے
جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے
-------------------------------------------------------
تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
فکر ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ
اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو
نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہم راہ ہے تو
جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
میں کہ رہتا ہوں بصد ناز گریزاں تجھ سے
تو نہ ہوگا تو بہت یاد کروں گا تجھ کو
-------------------------------------------------------
جو ہوا جونؔ وہ ہوا بھی نہیں
یعنی جو کچھ بھی تھا وہ تھا بھی نہیں
بس گیا جب وہ شہر دل میں مرے
پھر میں اس شہر میں رہا بھی نہیں
اک عجب طور حال ہے کہ جو ہے
یعنی میں بھی نہیں خدا بھی نہیں
لمحوں سے اب معاملہ کیا ہو
دل پہ اب کچھ گزر رہا بھی نہیں
جانیے میں چلا گیا ہوں کہاں
میں تو خود سے کہیں گیا بھی نہیں
تو مرے دل میں آن کے بس جا
اور تو میرے پاس آ بھی نہیں
-------------------------------------------------------
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
-------------------------------------------------------
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اداسی کہاں سے آتی ہے
ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا
بد حواسی کہاں سے آتی ہے
وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں
نا شناسی کہاں سے آتی ہے
ایک زندان بے دلی اور شام
یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے
تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو
ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے
دل ہے شب سوختہ سوائے امید
تو ندا سی کہاں سے آتی ہے
میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری
تو نراسی کہاں سے آتی ہے
-------------------------------------------------------
جز گماں اور تھا ہی کیا میرا
فقط اک میرا نام تھا میرا
نکہت پیرہن سے اس گل کی
سلسلہ بے صبا رہا میرا
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
تھوک دے خون جان لے وہ اگر
عالم ترک مدعا میرا
جب تجھے میری چاہ تھی جاناں
بس وہی وقت تھا کڑا میرا
کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا
اتنا آسان ہے پتا میرا
آ چکا پیش وہ مروت سے
اب چلوں کام ہو چکا میرا
آج میں خود سے ہو گیا مایوس
آج اک یار مر گیا میرا
-------------------------------------------------------
سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا
آخرش خون تھوکنے سے میاں
بات میں تیری کیا اثر آیا
تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا
ہر طرف سے میں بے خبر آیا
اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے
نہیں آؤں گا میں اگر آیا
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر
آج میں اس سے بھی مکر آیا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا
-------------------------------------------------------
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
جان جاں تجھ کو اب تری خاطر
یاد ہم کوئی دم نہیں کرتے
دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم
سر تسلیم خم نہیں کرتے
وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے
جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے
-------------------------------------------------------
تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
فکر ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ
اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو
نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہم راہ ہے تو
جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
میں کہ رہتا ہوں بصد ناز گریزاں تجھ سے
تو نہ ہوگا تو بہت یاد کروں گا تجھ کو
-------------------------------------------------------
0 Comments