Allama Muhammad Iqbal (RA) Urdu Ghazal Shayri

Assalam O Aliakum! On this page of NOOR KI SHAYRI you can read and enjoy the poetry of  Dr. Allama Muhammad Iqbal RA.




-------------------------------------------------------------


عجب واعظ کي دينداري ہے يا رب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے


کوئي اب تک نہ يہ سمجھا کہ انساں

کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے


وہيں سے رات کو ظلمت ملي ہے

چمک تارے نے پائي ہے جہاں سے


ہم اپني درد مندي کا فسانہ

سنا کرتے ہيں اپنے رازداں سے


بڑي باريک ہيں واعظ کي چاليں

لرز جاتا ہے آواز اذاں سے 


-------------------------------------------------------------


میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف

آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف


تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں

ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف


عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا

نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف


کھول کے کیا بیاں کروں سر مقام مرگ و عشق

عشق ہے مرگ باشرف مرگ حیات بے شرف


صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش

لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف


مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی

اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف


خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف 


-------------------------------------------------------------


یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری

صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری


یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے

وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری


کبھی حیرت کبھی مستی کبھی آہ سحرگاہی

بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا درد مہجوری


حد ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی

سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری


وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی

مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری


کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ

نہ تھے ترکان عثمانی سے کم ترکان تیموری


فقیران حرم کے ہاتھ اقبالؔ آ گیا کیونکر

میسر میر و سلطاں کو نہیں شاہین کافوری 


-------------------------------------------------------------


کيا عشق ايک زندگي مستعار کا

کيا عشق پائدار سے ناپائدار کا


وہ عشق جس کي شمع بجھا دے اجل کي پھونک

اس ميں مزا نہيں تپش و انتظار کا


ميري بساط کيا ہے ، تب و تاب يک نفس

شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا


کر پہلے مجھ کو زندگي جاوداں عطا

پھر ذوق و شوق ديکھ دل بے قرار کا


کانٹا وہ دے کہ جس کي کھٹک لازوال ہو

!يارب ، وہ درد جس کي کسک لازوال ہو


دلوں کو مرکز مہر و وفا کر

حريم کبريا سے آشنا کر


جسے نان جويں بخشي ہے تو نے

اسے بازوئے حيدر بھي عطا کر 


-------------------------------------------------------------


ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام

!وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام


پير حرم نے کہا سن کے مري روئداد

پختہ ہے تيري فغاں ، اب نہ اسے دل ميں تھام


تھا ارني گو کليم ، ميں ارني گو نہيں

اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام


گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کي فغاں

ہو نہيں سکتا کبھي شيوہ رندانہ عام


حلقہ صوفي ميں ذکر ، بے نم و بے سوز و ساز

ميں بھي رہا تشنہ کام ، تو بھي رہا تشنہ کام


عشق تري انتہا ، عشق مري انتہا

تو بھي ابھي ناتمام ، ميں بھي ابھي ناتمام


آہ کہ کھويا گيا تجھ سے فقيري کا راز

ورنہ ہے مال فقير سلطنت روم و شام


-------------------------------------------------------------


متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندي

مقام بندگي دے کر نہ لوں شان خداوندي


ترے آزاد بندوں کي نہ يہ دنيا ، نہ وہ دنيا

يہاں مرنے کي پابندي ، وہاں جينے کي پابندي


حجاب اکسير ہے آوارہ کوئے محبت کو

ميري آتش کو بھڑکاتي ہے تيري دير پيوندي


گزر اوقات کر ليتا ہے يہ کوہ و بياباں ميں

کہ شاہيں کے ليے ذلت ہے کار آشياں بندي


يہ فيضان نظر تھا يا کہ مکتب کي کرامت تھي

سکھائے کس نے اسمعيل کو آداب فرزندي


زيارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد ميري

کہ خاک راہ کو ميں نے بتايا راز الوندي


مري مشاطگي کي کيا ضرورت حسن معني کو

کہ فطرت خود بخود کرتي ہے لالے کي حنا بندي 


-------------------------------------------------------------


دريا ميں موتي ، اے موج بے باک

ساحل کي سوغات ! خاروخس و خاک


ميرے شرر ميں بجلي کے جوہر

ليکن نيستاں تيرا ہے نم ناک


تيرا زمانہ ، تاثير تيري

ناداں ! نہيں يہ تاثير افلاک


ايسا جنوں بھي ديکھا ہے ميں نے

جس نے سيے ہيں تقدير کے چاک


کامل وہي ہے رندي کے فن ميں

مستي ہے جس کي بے منت تاک


رکھتا ہے اب تک ميخانہ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک


اہل نظر ہيں يورپ سے نوميد

ان امتوں کے باطن نہيں پاک


-------------------------------------------------------------


ميرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تيري چٹانوں ميں ہے ميرے اب و جد کي خاک


روز ازل سے ہے تو منزل شاہين و چرغ

لالہ و گل سے تہي ، نغمہ بلبل سے پاک


تيرے خم و پيچ ميں ميري بہشت بريں

خاک تري عنبريں ، آب ترا تاب ناک


باز نہ ہوگا کبھي بندہ کبک و حمام

!حفظ بدن کے ليے روح کو کردوں ہلاک


اے مرے فقر غيور ! فيصلہ تيرا ہے کيا

خلعت انگريز يا پيرہن چاک چاک! 


-------------------------------------------------------------


يہ سرود قمري و بلبل فريب گوش ہے

باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے


تيرے پيمانوں کا ہے يہ اے مےء مغرب اثر

خندہ زن ساقي ہے، ساري انجمن بے ہوش ہے


دہر کے غم خانے ميں تيرا پتا ملتا نہيں

جرم تھا کيا آفرينش بھي کہ تو روپوش ہے


آہ! دنيا دل سمجھتي ہے جسے، وہ دل نہيں

پہلوئے انساں ميں اک ہنگامہء خاموش ہے


زندگي کي رہ ميں چل، ليکن ذرا بچ بچ کے چل

يہ سمجھ لے کوئي مينا خانہ بار دوش ہے


جس کے دم سے دلي و لاہور ہم پہلو ہوئے

آہ، اے اقبال وہ بلبل بھي اب خاموش ہے


-------------------------------------------------------------


مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہيں

يہي نماز ادا صبح و شام کرتے ہيں


خصوصيت نہيں کچھ اس ميں اے کليم تري

شجر حجر بھي خدا سے کلام کرتے ہيں


نيا جہاں کوئي اے شمع ڈھونڈيے کہ يہاں

ستم کش تپش ناتمام کرتے ہيں


بھلي ہے ہم نفسو اس چمن ميں خاموشي

کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہيں


غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کي

حلال چيز کو گويا حرام کرتے ہيں


!بھلا نبھے گي تري ہم سے کيونکر اے واعظ

کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہيں


!الہي سحر ہے پيران خرقہ پوش ميں کيا

کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہيں


ميں ان کي محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں

جو گھر کو پھونک کے دنيا ميں نام کرتے ہيں


!ہرے رہو وطن مازني کے ميدانو

جہاز پر سے تمھيں ہم سلام کرتے ہيں


جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال

بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں 


-------------------------------------------------------------

Post a Comment

0 Comments